سب کہ سنتے رہو
پیار کرتے رہو
اور کچھ نہ کہو
چاہے بولیں نہ وہ
لب کو کھولیں نہ وہ
دل الگ بات ہے
اپنے لہجہ میں بھی
پیار گھولیں نہ وہ
اپنا جو فرض ہے
اس طرح ہو ادا
جیسے ایک قرض ہے
کوئی جو کچھ کہے
اس کہ سنتے رہو
پیار کرتے رہو
اور کچ نہ کہو
بے خیالی میں ہی
لب اگر کھل جائیں
اور زباں پر کبھی
کوئی سچ آ گیا
یوں سمجھ لوں کہ پھر
سلسلہ جتنے تھے
درمیاں جو بھی تھا
خواب دیکھے تھے جو
سب بکھیر جائیں گے
ایسا کرنا نہیں
سب کی سننا مگر
تم بکھرنا نہیں
مسلے سب کے سب
ہیں سفید و سیاہ
مسئلوں میں کبھی
رنگ بھرنا نہیں
دل میں گر پیار ہو
لب پہ اقرار ہو
پیار ہی پیار بس
حرف اظہار ہو
گر انا یہ کہے
دل نہ مل پائیں گے
اس پہ مت جائیے
کھوٹی ہے یہ انا
اس سے کچھ نہ بنا
دل کی باتیں سنو
فاصلے سے صحیح
پیار کرتے رہو
اور کچھ نہ کہو
رستہ ایک ہے
مدعا ایک ہے
اک ہماری ہے کیا
ساری دنیا کا ہی
سلسلہ ایک ہے
ایک آئے تھے ہم
ایک آئے تھے تم
ایک ہے یہ سفر
بھیڑ کتنی بھی ہو
اپنی اپنی جگہ
ہر کوئی ایک ہے
نام ہیں گو جدا
پر خدا ایک ہے
بس خدا کی طرح
سب کی سنتے رہو
پیار کرتے رہو
اور کچھ نہ کہو
کہنے سننے سے تو
کچھ بدلتا نہیں
رات جاتی نہیں
دن ٹھہرتا نہیں
ہونے والا ہے کیا
کچھ بھی کھلتا نہیں
وقت کم ہے بہت
اتنے کم وقت میں
جس قدر کر سکو
پیار کرتے رہو
اور کچھ نہ کہو
نظم
پیار کرتے رہو
عدیل زیدی