پیار کا جشن نئی طرح منانا ہوگا
غم کسی دل میں سہی غم کو مٹانا ہوگا
کانپتے ہونٹوں پہ پیمان وفا کیا کہنا
تجھ کو لائی ہے کہاں لغزش پا کیا کہنا
میرے گھر میں ترے مکھڑے کی ضیا کیا کہنا
آج ہر گھر کا دیا مجھ کو جلانا ہوگا
روح چہروں پہ دھواں دیکھ کے شرماتی ہے
جھینپی جھینپی سی مرے لب پہ ہنسی آتی ہے
تیرے ملنے کی خوشی درد بنی جاتی ہے
ہم کو ہنسنا ہے تو اوروں کو ہنسانا ہوگا
سوئی سوئی ہوئی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے جام
کھوئی کھوئی ہوئی نظروں میں محبت کا پیام
لب شیریں پہ مری تشنہ لبی کا انعام
جانے انعام ملے گا کہ چرانا ہوگا
میری گردن میں تری صندلی باہوں کا یہ ہار
ابھی آنسو تھے ان آنکھوں میں ابھی اتنا خمار
میں نہ کہتا تھا مرے گھر میں بھی آئے گی بہار
شرط اتنی تھی کہ پہلے تجھے آنا ہوگا
نظم
پیار کا جشن
کیفی اعظمی