اب ان بوسیدہ کاغذ کے پلندوں کی
ضرورت کیا بچی ہے
ان لفافوں پر پتے سارے
پرانے ہو چکے ہیں
ان کو رکھنا کس لیے
بے رنگ تحریروں میں ڈوبے
ان خطوں کی کیوں حفاظت چاہئے
یہ پرانی فائلیں ضائع اگر ہو جائیں
تو نقصان کیا ہے
ہاتھ کیوں رکتے ہیں
ان کاغذ کے ٹکڑوں کو جلانے میں
اب ان کی معنویت کیا بچی ہے
اتنے ماہ و سال کے بعد
اس زمانے میں
مہک کیسی ہے ان میں
یا جو خوشبو سی لپکتی ہے
تو کیا ہے یہ رتوں کا خرخشہ اب کوئی رت ہوگی کہ جس نے
کاغذوں پر چھوڑ رکھا ہے اثر
برسوں گزرتے ہیں
نہیں، کچھ بھی نہیں یاد آتا ہے
لیکن یہ میرے ہاتھ ان کو چھوتے ہی
کیوں کانپنے لگتے ہیں
پہلے بھی تو بوسیدہ بہت کاغذ جلائے ہیں
نہ جانے ان پرانی فائلوں پر
کون سے گزرے ہوئے
لمحوں کے سائے ہیں
نظم
پرانی فائلوں میں گنگناتی شام
عین تابش