EN हिंदी
پرانے تماشے | شیح شیری
purane tamashe

نظم

پرانے تماشے

محمد علی اثر

;

اترتی شام سے پوچھیں گے
جگنوؤں کا مزاج

جنوں کے شہر میں
راتوں کا کیا ہوا آخر

افق پہ یوں تو سمٹ آئے تھے
نئے منظر

سلگتی آنکھوں میں حسرت
ہراس

تنہائی
تمام شہر تماشا بنا تھا

حیراں تھا
مگر جب آنکھ کھلی

وہی پرانے تماشے تھے اور مداری نئے