شراب خانہ ہے بزم ہستی
ہر ایک ہے محو عیش و مستی
مآل بینی و مے پرستی
ارے یہ ذلت ارے یہ پستی
شعار رندانہ کر پئے جا
اگر کوئی تجھ کو ٹوکتا ہے
شراب پینے سے روکتا ہے
سمجھ اسے ہوش میں نہیں ہے
خرد کے آغوش میں نہیں ہے
تو اس سے جھگڑا نہ کر پئے جا
خیال روز حساب کیسا
ثواب کیسا عذاب کیسا
بہشت و دوزخ کے یہ فسانے
خدا کی باتیں خدا ہی جانے
فضول سوچا نہ کر پئے جا
نہیں جہاں میں مدام رہنا
تو کس لیے تشنہ کام رہنا
اٹھا اٹھا ہاں اٹھا سبو کو
تمام دنیا کی ہاؤ ہو کو
غریق پیمانہ کر پئے جا
کسی سے تکرار کیا ضرورت
فضول اصرار کیا ضرورت
کوئی پئے تو اسے پلا دے
اگر نہ مانے تو مسکرا دے
ملال اصلا نہ کر پئے جا
تجھے سمجھتے ہیں اہل دنیا
خراب خستہ ذلیل رسوا
نہیں عیاں ان پہ حال تیرا
کوئی نہیں ہم خیال تیرا
کسی کی پروا نہ کر پئے جا
یہ تجھ پر آوازے کسنے والے
تمام ہیں میرے دیکھے بھالے
نہیں مذاق ان کو مے کشی کا
یہ خون پیتے ہیں آدمی کا
تو ان کا شکوا نہ کر پئے جا
نظم
پئے جا
حفیظ جالندھری