بہت گم سم بہت خموش ہے
وہ چند عرصے سے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا
کہ آخر ماجرا کیا ہے
وہی موسم وہی چاہت
وہی رنگت بھی پھولوں میں
مگر اک اس کہ خموشی نے اس پر کیف موسم کو
ہمارے واسطے موسم خزاں کا بنا ڈالا
پرندے اب بھی باغوں میں چہکتے ہیں
گھٹائیں اب بھی آتی ہیں
ہوائیں اب بھی چلتی ہیں
مگر پھر بھی مسرت دل کو کیوں حاصل نہیں ہوتی
وجہ یہ ہے
پیا خموش ہے میرا
نظم
پیا خموش ہے میرا
غوثیہ خان سبین