میرے کاندھے پہ بیٹھا کوئی
پڑھتا رہتا ہے انجیل و قرآن و وید
مکھیاں کان میں بھنبھناتی ہیں
زخمی ہیں کان
اپنی آواز کیسے سنوں
رانا ہندو تھا اکبر مسلمان تھا
سنجے وہ پہلا انسان تھا
ہستناپور میں جس نے قبل مسیح
ٹیلی ویژن بنایا
اور گھر بیٹھے اک اندھے راجہ کو
یدھ کا تماشہ دکھایا
آدمی چاند پر آج اترا تو کیا
یہ ترقی نہیں
اب سے پہلے، بہت پہلے
جب ذرہ ٹوٹا نہ تھا
چشمہ جوہر کا پھوٹا نہ تھا
فرش سے عرش تک جا چکا ہے کوئی
یہ اور ایسی بہت سی جہالت کی باتیں
میرے کاندھے پہ ہوتی ہیں
کاندھے جھکے جا رہے ہیں
قد مرا رات دن گھٹ رہا ہے
سر کہیں پاؤں سے مل نہ جائے
نظم
پیر تسمۂ پا
کیفی اعظمی