EN हिंदी
پھول مرجھا گئے سارے | شیح شیری
phul murjha gae sare

نظم

پھول مرجھا گئے سارے

فیض احمد فیض

;

پھول مرجھا گئے ہیں سارے
تھمتے نہیں ہیں آسماں کے آنسو

شمعیں بے نور ہو گئی ہیں
آئینے چور ہو گئے ہیں

ساز سب بج کے کھو گئے ہیں
پایلیں بج کے سو گئی ہیں

اور ان بادلوں کے پیچھے
دور اس رات کا دلارا

درد کا ستارا
ٹمٹما رہا ہے

جھنجھنا رہا ہے
مسکرا رہا ہے