پھر تصور کھا رہا ہے پیچ و تاب
پھر وہی ہیجان و حرکت کرب و درد و اضطراب
پھر وہی دھندلے نقوش ماہ و سال
پھر وہی صبح بہاراں پھر وہی شام وصال
پھر وہی بیتے ہوئے لمحوں کی یاد
پھر وہی موجیں وہی کشتی وہی باد مراد
پھر وہی رقص شرار زندگی
پھر وہی حسن لطافت ریز کی تابندگی
پھر وہی وعدوں پہ لطف انتظار
پھر وہی چشم سخن گو کے اشارے بار بار
پھر وہی درد مسلسل کی کسک
پھر وہی موج تبسم ہائے پنہاں کی جھنک
پھر وہی عیش و طرب کا اہتمام
پھر وہی بزم تمنا پھر وہی ساقی و جام
پھر وہی آغاز الفت کا سرور
پھر وہی یادوں کے سائے ذہن میں نزدیک و دور
پھر وہی شورش وہی جوش و خروش
پھر کہیں دیوانگی طاری نہ ہو اے دل خموش
نظم
پیچ و تاب
امجد نجمی