مطرب خوشنوا زندگی کے حسین گیت گاتا رہا
اس کی آواز پر انجمن جھوم اٹھی
اس نے جب زخم دل کو زباں بخش دی
سننے والوں نے بے ساختہ آہ کی
عشق کے ساز پر جب ہوا زخمہ زن
شور تحسیں میں خود اس کی آواز دب سی گئی
مطرب خوشنوا پھر بھی تنہا رہا
تشنگئ مشام اس کو باد صبا کی طرح گل بہ گل لے گئی
کاسۂ چشم نے پرتو گل بھی پایا نہیں
درد اس کا کسی محرم درد کے واسطے
در بہ در شہر در شہر پھرتا رہا
داد و تحسیں کے ہنگامۂ ذوق کش میں اسے
ہر طرف سے ملامت کے پتھر ملے
مطرب خوشنوا پتھروں سے پٹکتا رہا اپنا سر
پتھروں کو زباں تو ملی پر تکلم نہیں
پتھروں کو خد و خال انساں ملے دولت درد و غم کب ملی
پتھروں کو حسیں صورتیں تو ملیں دل نہیں مل سکا
پتھروں کو ملے پاؤں پر اعتماد سفر کون دے
پتھروں کو ملے ہاتھ پر عزم تیشہ زنی کون دے
سنگ سنتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں
دیکھتے ہیں مگر فرق کرتے نہیں
بات کرتے ہیں محسوس کرتے نہیں
ٹوٹ سکتے ہیں لیکن پگھلتے نہیں
گرد بن کر یہ اڑ جائیں سانچوں میں ڈھلتے نہیں
مطرب خوشنوا پتھروں سے پٹکتا رہا اپنا سر
مطرب خوشنوا پتھروں کو سناتا رہا درد دل
اپنا غم ان کا غم سب کا غم
پتھروں نے سنا اور چپ چاپ ہنستے رہے
پتھروں کی اسی انجمن کا مغنی ہوں میں
اور بے درد بے حس ستم گار پتھر سنیں گے کبھی
ان کا وہ مطرب خوشنوا شکوہ سنج زماں
اپنے نغمات کی آگ میں جل گیا
پھر ان ہی کے مانند پتھر کا بت بن گیا
نظم
پتھروں کا مغنی
وحید اختر