میں زخمی زخمی لہو لہو
ہر جنگل ہر آبادی میں
کانٹوں کے نکیلے رستوں پر
پھولوں کی رو پہلی وادی میں
ہر شہر میں ہر ویرانے میں
کوئی تو خریدار آئے گا
مقتل کی سنہری چوکھٹ تک
بسمل کا طرف دار آئے گا
اک آس لئے امید لیے
دامن میں مہ و خورشید لیے
پتھراؤ کی چومکھ برکھا میں
خوابوں کو بچاتا پھرتا ہوں
بے رحم حقیقت ملتی ہے
میں آنکھ چراتا پھرتا ہوں
*
اکثر یہ تمنا جاگی ہے
گویا میں چہکتا بالک ہوں
تتلی کے رنگیں پنکھوں پر
للچائے ہوئے بن بن گھوموں
ہر کنج میں خوشبو پی پی کر
گنجار میں بھونروں کی جھوموں
ہر بھورے بھئے ہر سانجھ بھئے
چہکار میں چڑیوں کی ڈولوں
فطرت سا سخی تو کوئی نہیں
نظروں سا دھنی تو کوئی نہیں
یہ پیڑ یہ پربت یہ ساگر
دھرتی پہ کھلونے رکھے ہیں
یہ دریا پرتیں چاندی کی
امرت کے دونے رکھے ہیں
میں امرت پینے رکتا ہوں
دریا کے تٹ پر چھائیں
پھنکارتی ہے ڈس جاتی ہے
خوابوں سے مجھے چونکاتی ہے
اکثر یہ گماں ہوتا ہے مجھے
میں ایک چمکتا جگنوں ہوں
شبنم کی ننھی بوندوں کو
پھولوں کا گھر دکھلاتا ہوں
میں شب کے اندھیرے سینے میں
نیکی کی کرن بن جاتا ہوں
جب پو کی روشنی آتی ہے
پھنکارتی ہے ڈس جاتی ہے
خوابوں سے مجھے چونکاتی ہے
*
اکثر یہ گماں ہوتا ہے مجھے
بت ساز ہوں میں ہر پتھر سے
دیرینہ شناسائی ہے مری
چلاتا ہے کوئی اندر سے
ہر سنکھ میں اک بت خانہ ہے
جس شے کو پتھر کہتے ہیں
وہ صورت کا بیعانہ ہے
ہر سنگ سے پھر بت ڈھلتے ہیں
ہر بت کو زباں مل جاتی ہے
میں پہروں ان کی سنتا ہوں
خوش ہوتا ہوں سر دھنتا ہوں
دنیا کو مگر فرصت ہی کہاں
آواز مری گھٹ جاتی ہے
خوابوں سے مجھے چونکاتی ہے
*
داناؤں کی اس نگری میں
یہ بہکی بہکی کون سنے
سر چیخ کی پھانسی پر ہو جہاں
سر خاموشی پر کون دھنے
میں کسی بستی کا باسی ہوں
کیا کہتا ہوں کیا سنتا ہوں
ان گیتوں کے کھلیانوں سے
کیوں موتی موتی چنتا ہوں
پتھراؤ کی چومکھ برکھا میں
ہر موتی ٹوٹتا جاتا ہے
خوابوں سے مجھے چونکاتا ہے
نظم
پتھراؤ کی چومکھ برکھا میں
شاذ تمکنت