EN हिंदी
پتھر | شیح شیری
pathar

نظم

پتھر

پریم واربرٹنی

;

ترے نکھرے ہوئے جلووں نے دی تھی روشنی مجھ کو
ترے رنگیں اشاروں نے مجھے جینا سکھایا تھا

قسم کھائی تھی تو نے زندگی بھر ساتھ دینے کی
بڑے ہی ناز سے تو نے مجھے اپنا بنایا تھا

مگر پچھتا رہا ہوں اب تری بے اعتنائی پر
کہ میں نے کیوں محبت کا سنہرا زخم کھایا تھا

ترا پیکر تری بانہیں تری آنکھیں تری پلکیں
ترے عارض تری زلفیں ترے شانے کسی کے ہیں

مرا کچھ بھی نہیں اس زندگی کے بادہ خانے میں
یہ خم یہ جام یہ شیشے یہ پیمانے کسی کے ہیں

بنایا تھا جنہیں رنگین اپنے خون سے میں نے
وہ افسانے نہیں میرے وہ افسانے کسی کے ہیں

کسی نے سونے چاندی سے ترے دل کو خریدا ہے
کسی نے تیرے دل کی دھڑکنوں کے گیت گائے ہیں

کسی ظالم نے لوٹا ہے ترے جلووں کی جنت کو
مگر میں نے تری یادوں سے ویرانے سجائے ہیں

کبھی جن پر محبت کا مقدر ناز کرتا تھا
وہ یادیں بھی نہیں اپنی وہ سپنے بھی پرائے ہیں

کسے معلوم تھا منزل ہی مجھ سے روٹھ جائے گی
لرز کر ٹوٹ جائیں گے مری قسمت کے سیارے

سر بازار بک جائے گی تیرے پیار کی عظمت
چلیں گے عشق کے حساس دل پر ظلم کے آرے

بڑے ارمان سے میں نے چنا تھا جن کو دامن میں
کسے معلوم تھا وہ پھول بن جائیں گے انگارے

جہاں تو ہے وہاں ہیں نقرئی سازوں کی جھنکاریں
جہاں میں ہوں وہاں چیخیں ہیں فریادیں ہیں نالے ہیں

مری دنیا میں غم ہی غم ہیں تاریکی ہی تاریکی
تری دنیا میں نغمے ہیں بہاریں ہیں اجالے ہیں

مری جھولی میں کنکر ہیں تری آغوش میں ہیرے
ترے پیروں میں پائل ہے مرے پیروں میں چھالے ہیں

میں جب بھی غور کرتا ہوں تری اس بے وفائی پر
تو غم کی آگ میں مہر و وفا کے پھول جلتے ہیں

نہ فریادوں سے زنجیروں کی کڑیاں ٹوٹ سکتی ہیں
نہ اشکوں سے نظام وقت کے تیور بدلتے ہیں

میں بھر سکتا ہوں تیری یاد میں حسرت بھری آہیں
مگر آہوں کی گرمی سے کہیں پتھر پگھلتے ہیں