EN हिंदी
پت جھڑ | شیح شیری
pat-jhaD

نظم

پت جھڑ

عبید الرحمان اعظمی

;

یہ رقص آفرینش ہے کہ شور مرگ ہے اے دل
ہوا کچھ اس طرح پیڑوں سے مل مل کر گزرتی ہے

کہ جیسے آخری بوسہ ہو یہ پہلی محبت بھی
ہر اک سو مرگ آرا ہے عدم انگیزیٔ فطرت

مگر شاید نگاہوں میں ابھی کچھ ذوق باقی ہے
کہ میں اس کرب میں بھی کیف پاتا ہوں

جہاں تک دیکھ پاتا ہوں زمیں پر تابش زر ہے
فضائے نیلگوں میں برگ افشانی سے منظر ہے

میں ان رنگینیوں میں ڈوب جاتا ہوں
مجھے ہر حسن گویا ایک درس شادمانی ہے

کہ اس تکمیل میں وہ دل کشی ہے وہ جوانی ہے
کہ پھر بربادیٔ باد خزاں کا غم نہیں رہتا

مری تاریک فطرت میں بھی اک تقدیس کا شعلہ
کسی کیف دروں سے پھوٹ جاتا ہے

کوئی اک قبر پر جیسے دیا رکھ دے
یہ آئین گل افروزی بھی کتنا روح پرور ہے

حریری کونپلوں سے زرد گوں پت جھڑ کے پتوں تک
مجھے اک ارتقائے حسن ملتا ہے

مگر دور زماں سے آہ میں پامال و افسردہ
کہیں بیٹھا ہوا گزرے دنوں کو یاد کرتا ہوں

ابھی پرچھائیاں کچھ عہد رفتہ کی
مری آنکھوں میں ہیں لرزاں

مری تصویر بچپن کی
ابھی تک گوشۂ دیوار میں ہے وہ بھی آویزاں

میں پہروں دیکھتا رہتا ہوں اس تصویر کو لیکن
یقیں مجھ کو نہیں آتا کہ یہ میرا ہی پرتو ہے

ہر اک شے اجنبی سی غیر سی محسوس ہوتی ہے
نہ کوئی اضطراب دل نہ کوئی کاہش درماں

نہ زیر لب بھی کوئی تلخئ ایام کا شکوہ
نہ ان کی یاد جو اب ذکر بھی میرا نہیں کرتے

جو شاید اب مجھے تقویم پارینہ سمجھتے ہیں
میں ڈرتا ہوں کہ اس دنیا میں کوئی بھی نہیں میرا

جو چاہوں بھی تو کس کو داستان غم سناؤں گا
وہ رنج تہہ نشیں ہے جو بیاں ہو ہی نہیں سکتا

وہ باد سرد کی بے مہر تیزی ہے
کہ خون دل بھی اب کچھ منجمد معلوم ہوتا ہے

نہ وہ شوریدگی باقی نہ اب وہ شور گریہ ہے
مرے داغ جگر سے وہ تراوش بھی نہیں ہوتی

مری رعنائیاں مجھ سے گریزاں ہیں
وہ میری فطرت معصوم وہ میری جگر سوزی

وہ میری درد مندی وہ خموشی وہ کم آمیزی
وہ اشکوں کی دلآویزی

ہر اک شے مائل پرواز ہو جیسے
مجھے اس کا بہت غم ہے

ابھی تک اس زوال دلبری کا دل کو ماتم ہے
میں حیراں ہوں کہ کیا یزداں بھی کوئی طفل مکتب ہے

کہ جو یوں کھیل کر پر نوچ لیتا ہے پتنگوں کے
وہ کیسی صورتیں ہوں گی جو زیر خاک پنہاں ہیں

مگر وہ لوگ جو مٹنے سے پہلے ماند پڑ جائیں
وہ جن کی گفتگو بھی ایک سرگوشی سی بن جائے

وہ افسردہ پشیماں مضمحل مایوس آئے جو
فراموشی کی منزل کی طرف چپکے سے بڑھتے ہیں

بھلا ان کی تلافی وعدۂ رنگیں سے کیا ہوگی
خدائے دو جہاں ہے تو بھی کتنا شوخ و بے پروا

بہت میں نے بھی کی ہیں دیدۂ پرخوں کی تفسیریں
مگر یہ دامن تر کیا کروں گلشن نہیں بنتا

یہی وہ سرزمیں وہ انتہائے فکر یزداں ہے
کہ جس میں خاک و خوں کا ہر گھڑی اک کھیل ہوتا ہے

مگر پھر بھی وہی بے رنگیٔ تمثال عالم ہے
کہاں وہ منزل جاں ہے کہاں ہے خاتمہ آخر

یہ ممکن ہے نہ کوئی خاتمہ اس رہگزر کا ہو
میں خیر و شر کے فرسودہ تصور میں ابھی گم ہوں

نہیں معلوم کوئی منتہائے زندگی بھی ہے
کہ جز اک نالۂ گردش نہیں سرمایۂ عالم

کہیں وہ باغ رضواں بھی نہ اک حسن طبیعت ہو
جسے گردوں سمجھتا ہوں وہ اک موہوم وسعت ہو

نہیں میں محرم راز درون مے کدہ لیکن
یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہر شے کچھ دگرگوں ہے

دل فطرت میں ہے شاید تمنائے جہان نو
مگر جیسے عروس زندگی کہتی ہو ہنس ہنس کر

کہ عالم اک بہار سرخیٔ خون شہیداں ہے
یہ مہر و ماہ و پرویں یہ زمیں یہ لالہ و نسریں

یہ فانوس خالی لڑکھڑا کر ٹوٹ جائے گا
یہ دنیا خواب کی جھوٹی کہانی ہے

میں اس رنگینیٔ اوراق سے دل شاد کیا ہوں گا
مرے دل میں نہیں اب آرزوئے خلد بھی باقی

مجھے یہ روشنی یہ آسماں کی بے کراں وسعت
کوئی درس تماشا اب نہیں دیتی

مرے ہوئے سفید و سیم کا آہ یہ منظر
فریب دید ہے میرا کفن ہوگا

مری اس خاک میں اب گرمیٔ تعمیر کیا ہوگی
وہ دنیا مٹ چکی اب اس کے مٹنے کا نہیں کچھ غم

یہ مرگ ناگہاں اپنا نصیبہ تھا
مگر اک تیر جیسے آج بھی پیوست ہو دل میں

کہ وہ رعنائی آئین برگ گل نہیں مجھ میں
مری شام خزاں کیوں اتنی ویراں ہے؟