EN हिंदी
پسپائی | شیح شیری
paspai

نظم

پسپائی

شریف کنجاہی

;

کیوں جگاتے ہو مرے سینے میں امیدوں کو
رہنے دو اتنا نہ احسان کرو

میں تو پردیسی ہوں اور آئی ہوں دو دن کے لیے
کل چلی جاؤں گی یا پرسوں چلی جاؤں گی

اور پھر آنے کا امکان نہیں
روز یوں گھر سے نکلنا بھی تو آسان نہیں

کیوں جگاتے ہو مرے سینے میں امیدوں کو
کیوں جلاتے ہو مرے دل کے چراغ

میں نے یہ سارے دیے خود ہی بجھا ڈالے ہیں
آپ اس بستی کو تاریک بنا رکھا ہے

جس طرح جنگ کی راتوں کو بڑے شہروں میں
بتیاں خود ہی بجھا دیتے ہیں

زندگی کے سبھی آثار مٹا دیتے ہیں
اس طرح

میں نے یہ سارے دیے خود ہی بجھا ڈالے ہیں
آپ اس بستی کو تاریک بنا رکھا ہے

اس پہ ہر رات نئے حملے ہوا کرتے تھے
آسمانوں سے کئی دشمن جاں طیارے

انہیں شمعوں کا نشانہ رکھ کر
بم گرا جاتے تھے اور آگ لگا جاتے تھے

اس کو تاریک ہی تم رہنے دو
دل کی دنیا میں اجالا نہ کرو

میری امیدوں کو مدہوش پڑا رہنے دو
تم نہیں مانو گے؟

تم دیکھتے ہی جاؤ گے؟
اچھا دیکھو!

لو جلاؤ مرے سینے کے چراغ
دل کی بستی میں چراغاں کر دو

پھر مرے جینے کا..... یا مرنے کا..... ساماں کر دو