EN हिंदी
پشیمانی | شیح شیری
pashemani

نظم

پشیمانی

کیفی اعظمی

;

میں یہ سوچ کر اس کے در سے اٹھا تھا
کہ وہ روک لے گی منا لے گی مجھ کو

ہواؤں میں لہراتا آتا تھا دامن
کہ دامن پکڑ کر بٹھا لے گی مجھ کو

قدم ایسے انداز سے اٹھ رہے تھے
کہ آواز دے کر بلا لے گی مجھ کو

مگر اس نے روکا نہ مجھ کو منایا
نہ دامن ہی پکڑا نہ مجھ کو بٹھایا

نہ آواز ہی دی نہ مجھ کو بلایا
میں آہستہ آہستہ بڑھتا ہی آیا

یہاں تک کہ اس سے جدا ہو گیا میں