پس دیوار زنداں
پس دیوار زنداں کون رہتا ہے
ہمیں معلوم کیا ہم تو
اسی اک آگہی کی آگ میں جلتے ہیں
مرتے ہیں
کہ دن کو رات کرتے ہیں
کبھی اک روشنی تھی
اور ستاروں کی چمک تھی تازگی تھی
مگر اب باب زنداں وا نہیں ہوتا
ہراساں شام کی تنہائیاں ہیں
ہمیں اب کیا خبر کون رہتا ہے
پس دیوار زنداں کون رہتا ہے
پس دیوار زنداں کون مرتا ہے
نظم
پس دیوار زنداں
وحید قریشی