EN हिंदी
پس آئینہ | شیح شیری
pas-e-aina

نظم

پس آئینہ

احمد ندیم قاسمی

;

مجھے جمال بدن کا ہے اعتراف مگر
میں کیا کروں کہ ورائے بدن بھی دیکھتا ہوں

یہ کائنات فقط ایک رخ نہیں رکھتی
چمن بھی دیکھتا ہوں اور بن بھی دیکھتا ہوں

مری نظر میں ہیں جب حسن کے تمام انداز
میں فن بھی دیکھتا ہوں فکر و فن بھی دیکھتا ہوں

نکل گیا ہوں فریب نگاہ سے آگے
میں آسماں کو شکن در شکن بھی دیکھتا ہوں

وہ آدمی کہ سبھی روئے جن کی میت پر
میں اس کو زیر کفن خندہ زن بھی دیکھتا ہوں

میں جانتا ہوں کہ خورشید ہے جلال مآب
مگر غروب سے خود کو رہائی دیتا نہیں

میں سوچتا ہوں کہ چاند اک جمال پارہ ہے
مگر وہ رخ جو کسی کو دکھائی دیتا نہیں

میں سوچتا ہوں حقیقت کا یہ تضاد ہے کیا
خدا جو دیتا ہے سب کچھ خدائی دیتا نہیں

وہ لوگ ذوق سے عاری ہیں جو یہ کہتے ہیں
کہ اشک ٹوٹتا ہے اور سنائی دیتا نہیں

بدن بھی آگ ہے اور روح بھی جہنم ہے
مرا قصور یہ ہے میں دہائی دیتا نہیں