بہت دن ہوئے
ایک تالاب کے پاس میں نے پرندوں کو دیکھا
فلک پر بھٹکتے ہوئے چند بادل تھے
اور صبح کی دھوپ میں ہلکی ہلکی سی ٹھنڈک
وہاں گہرے تالاب کے پاس اونچے درختوں کی اس اوٹ میں
دھوپ کی ٹھنڈی ٹھنڈی سی کرنوں سے لپٹے ہوئے سبز پتے
درختوں سے تالاب میں گر رہے تھے
وہیں میں نے دیکھا کہ دنیا کے سارے پرندے
نہ جانے کہاں سے زمانوں کے پھیلے ہوئے فاصلوں سے
ابھرتے ہیں تالاب کے پاس آ کر اترتے ہیں اور بولتے ہیں
وہیں میں نے ان سب پرندوں کو اونچے درختوں پہ نیلی فضاؤں میں تالاب کے پانیوں پر کناروں پہ ہر سمت دیکھا
وہ اڑتے ہوئے ہنس گاتی ہوئی بلبلیں مور صدیوں کے قاصد کبوتر
وہ ایسے پرندے بھی جو اپنے ناموں کو بس آپ ہی جانتے ہیں
وہ نادر صدائیں کہ جیسے وہ صدیوں کے اسرار کو کھولتی ہوں
وہ چہکار جیسے وہ ان دیکھی دنیاؤں سے آ رہی ہو
پرندوں کی بولی کے اسرار کو سیکھتے دن کٹا رات گزری
بہاریں خزائیں پلٹ کر کئی بار آئیں
بہت دن ہوئے میں نے جب ان پرندوں کو دیکھا
اور اب ان کی غیبی صداؤں کے اسرار کو چار سو دیکھتا ہوں
مجھے علم ہے ہر صدا دور سے آنے والی صدا ہے
ہر اک شے میں کوئی اشارت نہاں ہے
نظم
پرندوں کی بولی
سہیل احمد خان