رات نے جب گھڑیوں سے وقت اٹھا لیا
گھنٹی کی تیز آواز نے سارے پردوں کا رنگ اڑا دیا
کمرے میں چار آدمیوں نے اپنی اپنی سانسیں لیں
سانسیں مختلف رنگوں میں تھیں
ایک آدمی پرانے کلینڈر پر نشان لگا رہا تھا
دوسرا نیا کلینڈر ہاتھ میں مروڑ رہا تھا
تیسرے کا چہرہ چوتھے آدمی کے چہرے پر لگ گیا تھا
آدمی تین تھے
یہ تین سمتیں چوکور کمرے کے خالی کونے کو
دیکھ رہی تھیں
انہی تین سمتوں کو کل سارا شہر بننا تھا
وہ تینوں
کمرے کے تینوں کونوں میں جا کر کھڑے ہو گئے
اور سوچنے لگے
کس کا کونا ہے جو خالی رہ گیا ہے
اچانک پردہ ہلا
اور ایک پرندہ
اس کونے میں آ کر بیٹھ گیا
تینوں کے منہ سے نکلا
معصوم
انہیں پتا چلا کہ وہ تینوں وقت کی قید میں تھے
تینوں نے آگ جلائی
اور بولے
آگ جلنے تک یہ سمتیں ہماری رہیں گی
آگ چوتھے کونے میں لگائی گئی تھی
زندگی کے رخ بڑھتے جا رہے تھے
سورج نے چار کرنیں کمرے کے اندر پھینکیں
انہوں نے پانچ پانچ گز کا سنہری پن اپنے گرد لپیٹا
سورج کی تین بانہیں ٹوٹ گئیں
انہوں نے اپنی ایک ایک انگلی کاٹی
اور بولے
ہم نے اپنی انگلیوں سے زندگی کا سکوت توڑا
پرندہ کمرے میں رہ گیا
نظم
پرندہ کمرے میں رہ گیا
سارا شگفتہ