میں تو جیسے کھڑا ہوا ہوں اک منزل پر
اور لمحے یے وقت کے ٹکڑے
یوں اڑتے ہیں چاروں طرف اک تتلی جیسے
جس کے پنکھ کبھی تو سنہرے
اور کبھی لگتے ہیں سیہ
یوں ہی بے معنی بے موقعہ
ناچنے لگتی ہے دنیا دل گیت سناتا ہے
بنجر دھرتی سے ابلے پڑتے ہیں نور کے چشمے
اور اچانک
بادل کی چادر سورج کے منہ کو ڈھک دیتی ہے
مدھم پڑنے لگتا ہے سنگیت کا جادو
نور کا دم گھٹنے لگتا ہے
اور لمحے یے وقت کے ٹکڑے
یوں اڑتے ہیں چاروں طرف اک تتلی جیسے
جس کے پنکھ کبھی تو سنہرے
اور کبھی لگتے ہیں سیہ
نظم
پریکرما طواف
اشوک لال