ہماری دوری کے موسموں کو
اے جان جاناں نصاب رکھنا
میں تم سے ملنے کو آؤں گا جب
ورق ورق تم کتاب رکھنا
سبھی شکایات یاد کر کے
سزاؤں کا بھی حساب رکھنا
خلش ہے جو بھی تمہارے دل میں
مرے لیے انتساب رکھنا
سوال جتنے ہوں دل میں چبھتے
انہیں فراغت سے پوچھ لینا
مری محبت کا پاس کرنا
مجھے مکمل جواب رکھنا
اٹھانا پردے حقیقتوں سے
فقط نہ محو راب رکھنا
بچھڑ کے تم سے ملن کی لذت
تھکن ہماری سمیٹ لینا
فراق میں پھر جو دیں سہارا
ہمارے حصہ یہ خواب رکھنا
نہ دور جانا نہ ہجر دینا
نہ مجھ کو غرق عذاب رکھنا
ہمارے لفظوں پہ غور کرنا
بچھڑ کے تم سے نہ چین پایا
خموشیوں کو نہ راہ دینا
نہ دل کو خانہ خراب رکھنا
رفاقتوں کے بھنور میں مجھ کو
ڈبو ڈبو کے ابھار دینا
ہر ایک لمحہ نواز دینا
نہ مجھ سے کوئی حجاب رکھنا
تمہاری فرقت کے کرب کاٹے
میں قطرہ قطرہ بکھر رہا ہوں
تم اپنی چاہت کو میری خاطر
بہ صورت انجذاب رکھنا
جھلس چکے ہیں تمام جذبے
انہیں محبت سے سینچ دینا
ذرا سی سختی ذرا سی نرمی
مثال آب و تراب رکھنا
تمہارے جذبات کی صداقت
وجود پر ابر بن کے برسے
نکھر سکے زندگی کا موسم
مرے لیے یہ ثواب رکھنا
نظم
پردیسی کا خط
اسریٰ رضوی