ذروں کے دہکتے ایواں میں
دو شعلہ بجاں لرزاں سائے
مصروف نزاع باہم ہیں
اڑ اڑ کے غبار راہ عدم
ایواں کے بند دریچوں سے
ٹکرا کے بکھرتے جاتے ہیں
کہرے میں پنپتی سمتوں سے
نازاد ہواؤں کے جھونکے
نادیدہ آہنی پردوں پر
رہ رہ کے جھپٹتے رہتے ہیں
اک پل دو پل کی بات نہیں
ذروں کے محل کی بات نہیں
ہر ریشۂ گل ہر سنگ گراں
ہر موج رواں کے سینے میں
یہ بنت ازل اور بنت ابد کی
شعلہ بجاں پرچھائیاں یوں ہی
سر گرم پیکار نہ جانے کب سے ہیں
اور ہم ہیں کہ سالک راہ بقا
ہاتھوں میں لیے فانوس فنا
ذروں سے گریزاں
سورج کی نایاب شعاعوں کے ارماں
سینوں میں چھپائے جاتے ہیں
خود کو بہلائے جاتے ہیں
نظم
پرچھائیاں
عزیز تمنائی