بس
پل دو پل کی بات ہے
بے سبب پریشاں ہوتے ہو
تمہیں کس بات کا غم ہے
کیوں اداس رہتے ہو
دیکھو
ان نظاروں کو
مست آبشاروں کو
ندیوں اور پہاڑوں کو
سورج
چاند
ستاروں کو
گلیوں کو بازاروں کو
شاید تم بہل جاؤ
سوچو جب تم آئے تھے
اس طرح رو رہے تھے
جیسے بچے کے ہاتھ سے کھلونا چھن گیا ہو
پھر تم نے جو کچھ لیا یہیں سے لیا
جو کچھ بھی دیا یہیں پہ دیا
پھر کیوں اداس رہتے ہو
بس پل دو پل کی بات ہے
تم بے سبب پریشاں ہوتے ہو
نظم
پل دو پل
افروز عالم