پیغام ہوا لائی ہے نہ جانے کدھر سے
پتوں پہ ابھر آئی ہے تحریر کدھر سے
جو دیکھی ہے لائی ہے وہ تصویر کدھر سے
اک راہ پہ وہ آیا ہے اک لمبے سفر سے
محمل میں وہ بے خواب ہے عالم کی خبر سے
کیا دیکھیے! کیا شکل ہوئی زیر و زبر سے
اک وصل کے موسم میں جہاں جاگ اٹھا ہے
گھر بار زمیں کون و مکاں جاگ اٹھا ہے
خوش ہو کے وہ آزردۂ جاں جاگ اٹھا ہے
کیا وقت کی دہلیز پہ دستک ہے کسی کی؟
سوئی ہوئی دنیا کو سحر ڈھونڈ رہی ہے
اس دور کو اک اچھی خبر ڈھونڈ رہی ہے
نظم
پیغام
جیلانی کامران