اپنی آنکھوں میں خمستان مے ناب لیے
اپنے عارض پہ بہار گل شاداب لیے
اپنے ماتھے پہ درخشانیٔ مہتاب لئے
نکہت و رنگ لیے نور کا سیلاب لیے
عید آئی ہے محبت کا نیا باب لیے
زلف بکھری ہے کہ رحمت کی گھٹا چھائی ہے
جس طرف دیکھیے رعنائی ہی رعنائی ہے
رہ گزر کاہکشاں بن کے نکھر آئی ہے
ذرہ ذرہ ہے جمال در خوش آب لیے
عید آئی ہے محبت کا نیا باب لیے
خارزاروں پہ گلستاں کا گماں ہے امروز
شکوۂ جور کسی لب پہ کہاں ہے امروز
ملتفت چشم حسینان جہاں ہے امروز
کتنے تسلیم لیے کتنے ہی آداب لیے
عید آئی ہے محبت کا نیا باب لیے
کس قدر رحمت ساقی ازل عام ہے آج
رقص پیمانہ لیے گردش ایام ہے آج
بادۂ کیف سے لبریز ہر اک جام ہے آج
عشرت روح و سکون دل بے تاب لیے
عید آئی ہے محبت کا نیا باب لیے
دوش گیتی پہ پریشاں ہوئی پھر زلف شمیم
لڑکھڑاتی ہوئی پھرتی ہے گلستاں میں نسیم
پھر زمیں بن گئی غیرت دہ گل زار نعیم
خاک ہے تختۂ گل بستر سنجاب لیے
عید آئی ہے محبت کا نیا باب لیے
زندگی رنج و الم بھول گئی ہے اے دوست
محفل زیست بصد شوق سجی ہے اے دوست
عشق بیگانۂ آشفتہ سری ہے اے دوست
حسن ہے پیرہن اطلس و کمخواب لیے
عید آئی ہے محبت کا نیا باب لیے
درد ہستی کی دوا کر لیں خلوص دل سے
آؤ اک فرض ادا کر لیں خلوص دل سے
آؤ تجدید وفا کر لیں خلوص دل سے
جذبہ و شوق ہم آہنگیٔ احباب لیے
عید آئی ہے محبت کا نیا باب لیے
نظم
پیغام عید
حفیظ بنارسی