چھ ہزار برسوں سے اہل دین و دانش نے
بار بار کوشش کی بار بار کوشش کی
تاکہ سامنے والی اس خموش کھائی پر
کوئی پل بنا سکتے
کوئی پل بنا سکتے اس خموش کھائی پر
جس کی ایک جانب کو روز آفرینش سے
حیرت اور دہشت میں دم بخود ہیں استادہ
کچھ شعور کے ٹیلے
ہر انا کے ٹیلے سے لا انا کی اک ڈھلوان
اک اتھاہ سی ڈھلوان بے پناہ سی ڈھلوان
ایک دم کھڑی ڈھلوان اس خلا میں جھکتی ہے
جس کی تہہ بھی ہے خالی
اک کھلا دہانہ سا جس کی تہہ بھی ہے خالی
بے مزاحمت وسعت بے وجود موجودی
اک ربودہ خودداری اک غنودہ بیداری
نرم و گنگ پہنائی
نرم نرم سناٹا گنگ گنگ پہنائی
نرم و گنگ پہنائی ماں ہے ان چٹانوں کی
سر بہ آسماں جن کی چوٹیاں چمکتی ہیں
چشمک شرر بن کر
چشمک شرر بن کر ہر فروغ مستعجل
اس عظیم وسعت کے خواب ناک سینے میں
نور کا جھماکا سا ہو کے راکھ بنتا ہے
راکھ بنتی ہے پتھر
وسعتوں سے جو ٹھٹکا بس وہی تو پتھر ہے
سختی و صلابت کیا خود میں بند ہو جانا
یہ گرہ نہ کھل جائے بس اسی لیے سختی
نرمیوں سے ڈرتی ہے
نرمیوں سے ڈرتی ہے سختیوں کی یہ دنیا
وسعتوں سے ڈرتی ہے تنگیوں کی یہ دنیا
ندیوں سے ڈرتی ہے پتھروں کی یہ دنیا
دل سے عقل ڈرتی ہے
نرمیوں کی زد سے ہے سختیوں میں مہجوری
کھائیوں کا خمیازہ چوٹیوں کی ہے دوری
سروروں میں دوری ہے خود سروں میں دوری ہے
پتھروں میں دوری ہے
اس اتھاہ کھائی سے پتھروں کو وحشت ہے
بے خودی کی وسعت سے ہر خودی پہ دہشت ہے
جب سے یہ چٹانیں ہیں شور ہے چٹانوں میں
کھائیوں پہ پل باندھو
کھائیوں پہ پل باندھو کھائیوں پہ پل باندھو
سختیوں سے سختی تک نرمیوں پہ پل باندھو
تنگیوں سے تنگی تک وسعتوں پہ پل باندھوں
بس یہ سعی جاری ہے
نظم
پہنائی
اجتبیٰ رضوی