درد کی ساعتوں سے گھبرا کر
فائلوں سے دلوں کو بہلا کر
کیا بتائیں کہ کس طرح ہم نے
تیری فرقت میں دن گزارے ہیں
تیری آمد ہمارے چہرے پر
آج اک تازگی سی لے آئی
لیکن اس عارضی مسرت کو
خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں
چند لمحوں میں یہ نئے کاغذ
ہم سے اس طرح دور بھاگیں گے
جس طرح چند قرض داروں کی
پیچھا کرتی ہوئی نگاہوں سے
پورے اک ماہ ہم فرار رہے
کل سے پھر اے سدا بہار دلہن
رات دن انتظار میں تیرے
کوہ غم سے سر اپنا پھوڑیں گے
تجھ سے رشتہ کبھی نہ توڑیں گے
نظم
پہلی تاریخ
آفتاب شمسی