EN हिंदी
پہلے تو شہر ایسا نہ تھا | شیح شیری
pahle to shahr aisa na tha

نظم

پہلے تو شہر ایسا نہ تھا

عین تابش

;

اک بار چل کر دیکھ لیں
شاید گزشتہ موسموں کا کوئی اک

دھندلا نشاں مل جائے
اور پھر سے فضا شاداب ہو

اجڑا ہوا اک خواب ہو
تصویر میں کچھ گرد باد باقیات منبر و محراب ہو

اک بار چل کر دیکھ لیں
پھر بند ہوتے شہر کے بازار کو

جھانکیں ذرا
اجڑی دکانوں میں

کلاہ و جبہ و دستار کو
اک شہر تازہ کار کو کچھ دیر بھولیں

اور اس کو سلوٹوں میں
ڈھونڈیں اک کھوئی ہوئی تصویر کو

تصویر میں کچھ باقیات منبر و محراب ہیں
کچھ جلوہ ہائے عہد عالم تاب ہیں

وہ لاش جو کچلی گئی
وہ خواب جو روندے گئے

وہ نام جو بھولے گئے
ان سلوٹوں میں دفن

کتنی برکتوں کے راز ہیں
اک بار چل کر دیکھ لیں

پہلے تو شہر ایسا نہ تھا