EN हिंदी
پہلے موسم کے بعد | شیح شیری
pahle mausam ke baad

نظم

پہلے موسم کے بعد

تنویر انجم

;

جنم کا پہلا دیو مالائی موسم گزر گیا
اور تم رک گئے

آخری قدم کے آگے دیوار کی اینٹیں چنتے چنتے رات ہو گئی
تو میں نے سوچا

جانے زنجیروں کا طول کون سے موسم سے کون سے موسم تک ہے
مگر آگے صرف لا محدودیت ہے یا پھر دیوار

جس کی اینٹوں کا گارا وقت کی مٹی سے بنا ہے
تنہائی کا پانی آخری قدم کے آگے دیوار کو مضبوط کر دیتا ہے

تو اچانک رات اپنا سر اٹھاتی ہے
تمہیں نہیں معلوم

سانپ ڈسنے سے پہلے کتنی دیر پھن پھیلائے کھڑا رہا
اور تم کہاں رکے تھے

اور اپنے آگے دیوار کی بلندی کے سامنے
تمہیں کچھ نہیں معلوم

صرف ایک بات کے سوا
کہ ہر جنم کا صرف ایک ہی دیومالائی موسم ہوتا ہے