وہ لمحہ
آئینوں کا دریا
جس میں تم نے اپنا آپ پہچانا
جس میں تم نے جانا
کہ اپنے وجود میں قید تم محض سراب ہو
کہ شعروں میں محفوظ ہو
تو تم آواز نہیں بازگشت نہیں
محفل آوازوں ارادوں کا خواب ہو
اس دانش گاہ کے بادلوں میں کوندے بھرے ہیں
میرے ہاتھوں میں ہاتھ دو
میرے ہاتھوں میں ہاتھ دو
سیاہ شعلے تم سے کہتے ہیں چلو
ہم نئے بازو
نئی بلند آوازوں کے ساتھ چلیں
واپس
اس وطن کو جس کا فرش ہر روز
نئے لہو سے دھویا گیا ہے
شیشوں کی زبانیں تم سے کہتی ہیں
اب تم اک نئی آگ کے
آنسو کی طرح
زرتار ہو

نظم
پہچان
اعجاز احمد اعجاز