EN हिंदी
پہاڑوں کے بیٹے | شیح شیری
pahaDon ke beTe

نظم

پہاڑوں کے بیٹے

مجید امجد

;

مرے دیس کی ان زمینوں کے بیٹے جہاں صرف بے برگ پتھر ہیں صدیوں سے تنہا
جہاں صرف بے مہر موسم ہیں اور ایک دردوں کا سیلاب ہے عمر پیما

پہاڑوں کے بیٹے
چنبیلی کی نکھری ہوئی پنکھڑیاں سنگ خارا کے ریزے

سجل دودھیا نرم جسم اور کڑے کھردرے سانولے دل
شعاعوں ہواؤں کے زخمی

چٹانوں سے گر کر خود اپنے ہی قدموں کی مٹی میں اپنا وطن ڈھونڈتے ہیں
وطن ڈھیر اک ان منجھے برتنوں کا

جسے زندگی کے پسینوں میں ڈوبی ہوئی محنتیں در بہ در ڈھونڈھتی ہیں
وطن وہ مسافر اندھیرا

جو اونچے پہاڑوں سے گرتی ہوئی ندیوں کے کناروں پہ شاداب شہروں میں رک کر
کسی آہنی چھت سے اٹھتا دھواں بن گیا ہے

ندی بھی زر افشاں دھواں بھی زر افشاں
مگر پانیوں اور پسینوں کے انمول دھارے میں جس درد کی موج ہے عمر پیما

ضمیروں کے قاتل اگر اس کو پرکھیں
تو سینوں میں کالی چٹانیں پگھل جائیں!