کہانی کے سارے پرندے
بہت دور شاید افق میں
کہیں منجمد ہو گئے ہیں
شجر زرد پتوں کی تصویر بن کر
علامت کی تحریر بن کر
بکھرنے لگا ہے
کسی جھیل کے آئینے میں وہ مہ وش
بدن کے کسی زاویے سے نکلنے کی خواہش میں
پلکیں اٹھائے ہوئے دیکھتی رہ گئی ہے
پرندوں کی مانند میں بھی یہاں تھا
مگر اب نہیں ہوں
کہ ہونے کی خواہش نے شاید مجھے بھی
خلا میں معلق ستاروں کی مانند گم کر دیا ہے
نہ اب موسموں کے ستم ہیں
نہ اب رات کی سرد آمیزشوں میں ٹھٹھرنے کی راحت ہی آواز دیتے ہیں مجھ کو
نہ پتھر کی مانند ہاتھوں میں سورج
رگ و پے میں میرے لہو کی حرارت بنے گا
زمانہ کوئی شعبدہ گر
مجھے دور ہی دور لے جا رہا ہے
کہ میں نیم وا غار کی سیڑھیوں میں اترنے لگا ہوں
چراغ طلسمات ملنے سے پہلے
زمین نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا ہے
دعا بد دعا بن گئی ہے
کہ ہر لفظ کے دائرے سے لہو رس رہا ہے
کسی سانحے نے زمیں سے فلک کی طرف جاتے جاتے
مجھے بھی ستاروں میں گم کر دیا ہے
کہ میں اپنے سائے کی دہلیز پر
لذت آشنائی میں کھویا ہوا اجنبی ہوں
نظم
پاتال زمین آسمان
احمد ظفر