ہم کیا کرتے کس رہ چلتے
ہر راہ میں کانٹے بکھرے تھے
ان رشتوں کے جو چھوٹ گئے
ان صدیوں کے یارانوں کے
جو اک اک کر کے ٹوٹ گئے
جس راہ چلے جس سمت گئے
یوں پاؤں لہولہان ہوئے
سب دیکھنے والے کہتے تھے
یہ کیسی ریت رچائی ہے
یہ مہندی کیوں لگائی ہے
وہ کہتے تھے کیوں قحط وفا
کا ناحق چرچا کرتے ہو
پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو!
یہ راہیں جب اٹ جائیں گی
سو رستے ان سے پھوٹیں گے
تم دل کو سنبھالو جس میں ابھی
سو طرح کے نشتر ٹوٹیں گے
Wash the Blood Off Your Feet
What could we do—where could we go?
Thorns were strewn in every pathway.
Those bonds, now sundered—
those friendships of centuries
broken, one by one;
whichever way we went, in whatever direction,
the feet were bathed in blood.
نظم
پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو
فیض احمد فیض