کل رات جب اپنی زلفیں فضا میں بکھرا چکی تھی
اور تھکا ہوا عالم
اس کے گداز ابھاروں سے لپٹا سو رہا تھا
میں بے خوابی کا مارا
اپنے کمرے میں اس کی پنڈلیاں سہلا رہا تھا
باتھ روم میں پانی کی اک ٹوٹی سے
ٹپ ٹپ کی آواز آ رہی تھی
میں نے سوچا پانی تو وقت کی علامت ہے
یہ باتھ روم میں بوند بوند گر رہا ہے
اگر جو ٹوٹی کو میں کس دوں
کیا وقت کا بہنا رک جائے گا
کیا کن فیکون سے پہلے ایسے ہی
وقت اک پائپ میں ٹھہرا تھا
نظم
پانی
ملک احسان