پانی پر اک تصویر ہماری ابھری تھی
اک تصویر زمانے کی
اور کبھی یہ تصویریں آپس میں گڈمڈ ہو جاتیں
اک دوجے میں گھل مل جاتیں
پھر سے جدا ہو جاتی تھیں
پانی کے اک قطرے نے ان آنکھوں میں
دیکھو کیسا کھیل رچایا
جانے کیسا پانی تھا اس پانی پر بہتے
کیسے کیسے بازار لگے تھے
کیسی کیسی تصویریں
جانے کون تھا
ہم اپنے کرتے کے دامن سے
کس کے آنسو پونچھ رہے تھے
پھر اک لہر اٹھی سارا بازار اس بازار میں، ہم دونوں
گہرے پانی میں ڈوب رہے تھے
نظم
پانی کا کھیل
مصحف اقبال توصیفی