آنکھیں ہی آنکھیں اگ آئی ہیں سارے دروازوں پر
اپنا خون ہی
گندی گندی باتیں کرتا ہے کانوں میں
ہر کھونٹی میری جانب انگشت نمائی کرتی ہے
گھور گھور کر
مجھ کو ہر شے دیکھ رہی ہے
گرم گرم سانسوں کے پھیکے
تکیے سے نکلا کرتے ہیں
گیلے ہونٹ ہوا کے
میرے گالوں پر رینگا کرتے ہیں
اک ان جانی خواہش پلو کھینچ رہی ہے
اپنی ہی پرچھائیں مجھ کو بھینچ رہی ہے

نظم
پاکیزگی کا سولہواں سال
مظفر حنفی