قافیوں سے کوئی چھٹکارا دلائے
بن گئی تکلیف جاں مجھ کو ردیف
بحر ہے ہر وقت دل میں موجزن
(قافیے کی آزمائش سے گزر
قافیہ پیما نہ بن
قافیے نے آ دبوچا قافیہ پیما نہ ہو)
کھردرے پن کو ترستی ہے زباں
کیوں منجھی ہیں اس قدر نظمیں مری
کیوں سجی ہے اس قدر میری غزل
(قافیے کو روک پھر آنے لگا)
ذہن ہے مجنون آداب سخن
دل پرانے رس کا رسیا ہے ابھی
نکہت ماضی کا بسیا ہے ابھی
(قافیہ پھر آ گیا مجبور ہوں
قافیے کو روک پھر آنے لگا)
سوچتا ہوں بحر کی موجوں میں جکڑا ہوں ابھی
قافیہ تو خیر کافی رک گیا
بحر تو ٹوٹی نہیں
بحر اک بحر بسیط
بحر اک دیو تنومند و محیط
اس قدر جدت سے کیوں ہے کد مجھے
ذہن و دل ہیں کیوں روایت کے اسیر
نظم
نقطوں کی کشمکش
کرشن موہن