EN हिंदी
نسٹالجیا | شیح شیری
Nostalgia

نظم

نسٹالجیا

بلال احمد

;

وہ دن کتنے منور تھے
کسی کو بازوؤں میں بے طرح بھرنے کی خواہش سے

ایاغ جسم و جاں اک بے خودی میں جب لبا لب تھا
چناروں کے بدن میں سرخ رو مستی دہکتی تھی

کچھ ایسا حال بیش و کم ہمارے دل کا بھی تب تھا
وہ دن کتنے منور تھے

کہ بچپن کی حسیں شاموں کے سائے بات کرتے تھے
تو جیسے دور افق قلقل سے ہنستا تھا، جہاں رب تھا

کہ ہر لذت زباں کو یاد کے نامے سناتی تھی
کہ ہر خوشبو سے پیوستہ کوئی پچھلا جہاں جب تھا

محبت دل کے خالی دشت میں جب سیر کرتی تھی
سو اس تاراج کے آگے ہمیں کچھ ہوش ہی کب تھا

خوشی کا نرم پر طائر بدن میں سرسراتا تھا
تو آنسو بھی امڈتے تھے، خوشی کا یہ بھی اک ڈھب تھا

وہ دن کتنے منور تھے
تہی کیسہ زمانے سر خوشی سے جب چھلکتے تھے

بھرے دن جس سے خالی ہیں تہی کیسوں میں وہ سب تھا