EN हिंदी
نوستالجیا | شیح شیری
nostalgia

نظم

نوستالجیا

علی عمران

;

بیس برس وہ پرانی شرٹ
نکلی ہے الماری سے

میں نے تہہ کر کے اس کو
الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں رکھا تھا

جیسے میری بوڑھی ماں قرآن کو چوم کے رکھتی تھی
تیری یادوں کے پرفیوم کے دھبے پڑے ہیں اب تک

اور میں چھو کر دیکھوں تو
خوشبو بھی اب تک گئی نہیں ہے

وقت اس شرٹ کی آستین کا گھسا ہوا ہے
بس میں آخری بار جو تیرا ٹکٹ لیا تھا

جیب میں اب تک پڑا ہوا ہے
تو نے آخری بار بٹن ٹانکا تھا اس میں

یاد ہے جاناں
دانت سے دھاگہ توڑ کے کیسے

سوئی چبھوئی تھی سینے میں
اس کی ٹیسیں آج بھی میرے

دل میں رہ رہ کر اٹھتی ہیں
سب کچھ اتنا ہی تازہ ہے

میں نے شرٹ سنبھال کے رکھی
وقت کو میں نے روک کے رکھا

سب کچھ ویسے کا ویسا ہے
لیکن جاناں

یہ تو بتا تو
شرٹ کے کالر پر جو تیری

کالی زلف کا بال ٹکا تھا
اس پر سفیدی کیسے آئی