EN हिंदी
نشان زندگی | شیح شیری
nishan-e-zindagi

نظم

نشان زندگی

اعجاز گل

;

کس نے کھینچی ہیں لکیریں مرے دروازے پر
کون ہے جو کہ دبے پاؤں چلا آیا ہے

میرے بے رنگ ہیولے کا تعاقب کرتا
میں تو محتاط تھا ایسا کہیں آتے جاتے

اپنے سائے کو بھی پاتال میں چھوڑ آتا تھا
اپنا سامان اٹھاتا تو شب نصف پہر

دست ہشیار مٹاتا مرے قدموں کا سراغ
جسم ہر سانس کی آواز مقفل رکھتا

خاک ہی خاک کی خوشبو کا تدارک کرتی
جانتا تھا نہیں محفوظ ٹھکانہ میرا

لوگ موجود ہیں جو مجھ پہ نظر رکھتے ہیں
دور نزدیک نہاں خانوں کے اندر بیٹھے

ایک حرکت ہو تو سو عکس بنا لیتے ہیں
ان کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے زر و مال مرا

طرز تعمیر مری منبر و محراب مرے
ان کے اہداف ہیں دیوار و در و باب مرے

اور اک گوہر نایاب کہ تہہ خانے میں
ہوس دل کو ہے اسباب پریشانی کا

میری دیوانگی و وحشت و حیرانی پر
مجھ پہ مامور کہن سال سگان خفتہ

کل کسی ساعت کمزور کی تاریکی میں
اس کمیں گاہ میں سوراخ سے در آئے تھے

دور دالان کے کونے میں کھڑے ہنستے ہیں