ہوا کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر
جدائیوں کے سفر پہ نکلے تھے تم
مگر کیوں
رکے ہوئے ہو
یقین خفتہ گمان پختہ کے پانیوں پر
جہاں پہ اول محبتوں کے کنول کھلے تھے
ابھی وہیں ہو!
جدائیوں کے سفر پہ جا کر بھی اب تلک تم
گئے نہیں ہو!
چلے بھی جاؤ
چلے بھی جاؤ
کہ گمشدہ ذات کے خزینے کی کنجیاں ڈھونڈنی ہیں میں نے
سکوت صوت و صدا کے پردے میں طرز گفتار سیکھنی ہے
نکل کے موجودہ وقت کے بے دریچہ بے در حویلیوں سے
مجھے ملاقات سوچنی ہے
بہت سی بے نام غیر محدود ساعتوں کی سہیلیوں سے
چلے بھی جاؤ
بس اس سے پہلے
کہ موم لمحہ پگھل ہی جائے
کہ جبر آغاز ہو شبوں کا
کہ سوچ رستہ بدل ہی جائے
چلے بھی جاؤ
نظم
نصف ہجر کے دیار سے
سعید احمد