اک خوشبو درد سر کی مرجھائی کلیوں کو کھلائے جاتی ہے
ذہن میں بچھو امیدوں کے ڈنک لگاتے ہیں
ہچکی لے کر پھر خود ہی مر جاتے ہیں
دل کی دھڑکن سچائی کے تلخ دھوئیں کو گہرا کرتی پیہم بڑھتی جاتی ہے
پیٹ میں بھوک ڈکاریں لیتی رہتی ہے
پھر رگ رگ میں سوئیاں بن کر بھاگی بھاگی پھرتی ہے
پورے جسم میں درد کا اک لاوا سا بہتا رہتا ہے
ایسا مجھ کو لگتا ہے
جیسے میں
آخری قے میں اس دنیا کی ساری غذائیں خواب و حقیقت کی آلائش
آدرشوں کی میٹھی شرابیں
اک بے معنی کشش میں الجھا
یہ جیون
سارا کا سارا اگل دوں گا
شاید مجھ کو اس لمحے نروان ملے
نظم
نروان
باقر مہدی