کبھی خرد کی کھلی دھوپ میں چلا آیا
کبھی میں عشق کے سائے میں جا کے بیٹھ گیا
کبھی کتاب کھنگالی کبھی ستارے گنے
حرم میں دیر میں گرجا میں ہر طرف ڈھونڈا
تجھے صدائیں لگائیں تجھے تلاش کیا
مگر اے روح کہیں تو نظر نہیں آئی
میں تھک کے ہار کے لوٹا تو کس طرح لوٹا
کہ اپنی جسم کی سرحد پہ آ گیا ہوں میں
یہاں سے آخری آواز دے رہا ہوں تجھے
یہاں کے بعد فقط جسم کی حکومت ہے
یہاں کے بعد فقط جسم کی حکومت ہے
نظم
نربھیا کی موت پر
مظفر ابدالی