یہ کس پیکر کی رنگینی سمٹ کر دل میں آتی ہے
مری بے کیف تنہائی کو یوں رنگیں بناتی ہے
یہ کس کی جنبش مژگاں رباب دل کو چھوتی ہے
یہ کس کے پیرہن کی سرسراہٹ گنگناتی ہے
مری آنکھوں میں کس کی شوخیٔ لب کا تصور ہے
کہ جس کے کیف سے آنکھوں میں میری نیند آتی ہے
سکوت اور شانتی کے ہر قدم پر پھول برساتی
اسیر کاکل شب گوں بنا کر مسکراتی ہے
مری آنکھوں میں گھل جاتی ہے وہ کیف نظر بن کر
مجھے قوس قزح کی چھاؤں میں پہروں سلاتی ہے
سحر تک وہ مجھے چمٹائے رکھتی ہے کلیجے سے
دبے پاؤں کرن خورشید کی آ کر جگاتی ہے
نظم
نیند
مخدومؔ محی الدین