رات خامشی لے کر
جھولتی ہے پیڑوں پر
دشت دشت ویراں ہیں
روشنی کے ہنگامے
تیرگی برستی ہے
اونچے نیچے ٹیلوں پر
نیند کیوں نہیں آتی
میں اداس رہتا ہوں
دن کے گرم میلے میں
میں ملول رہتا ہوں
شام کے جھمیلے میں
میں شراب پی کر بھی
ہوشیار رہتا ہوں
جو بھی دل پہ لگ جائے
میں وہ زخم سہتا ہوں
سوچتا ہوں دنیا میں
میں بھی کتنا تنہا ہوں
چاندنی کے پہلو میں
دل نواز کرنوں کو
اوڑھ کر میں لیٹا ہوں
نیند کیوں نہیں آتی
نیند ایک خوشبو ہے
رات کی فضاؤں میں
کو بہ کو بھٹکتی ہے
میرے گھر نہیں آتی
مجھ سے دور رہتی ہے
پھر میں خود سے کہتا ہوں
نیند کیوں نہیں آتی
نظم
نیند کیوں نہیں آتی
فاروق نازکی