نیند آنی ہو تو آ جاتی ہے
تیز پنکھا ہو یا بہت دھیما
سرد موسم ہو یا بہت گرمی
ہاتھ سینہ پہ ہو کہ سر کے تلے
ہو اندھیرا یا روشنی تیکھی
رات ہو دن ہو شور یا چپی
سخت بستر ہو سلوٹوں والا
آنکھ جلتی ہو برے سپنوں سے
سر پہ منڈلاتی ہو کالی چھایا
نیند آنی ہو تو آ جاتی ہے
اور جب نیند نہیں آنی ہو
سارے آرام ریشمی بستر
لوریاں گاتی ہوئی مند ہوا
سب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں
کام کرتی ہے دوا اور نہ دعا
نیند کی وادیوں سے دور کہیں
پلکیں کروٹ بدلتی رہتی ہیں
بند آنکھوں کو چیر کر جیسے
نظریں کچھ ڈھونڈھتی سی رہتی ہیں
جب کبھی نیند نہیں آنی ہو!
''نیند اک نازنیں سے کم تو نہیں'' آئی، آئی کبھی نہیں آئی!
نظم
نیند
اشوک لال