نیند آتی ہے تو لگتا ہے کے تم آئے ہو
آنکھ کھولوں تو کہیں دور تلک کوئی نہیں
ہوں مقید میں کسی گوشۂ تنہائی میں
ہر طرف پھیلی ہوئی دھند نظر آتی ہے
سامنے تم سے بچھڑنے کا وہی منظر ہے
آنکھ میں چبھتا ہے یہ میل کا پتھر سن لو
لوگ کہتے ہیں مناظر تو بدل جاتے ہیں
کچھ قدم چھوڑ کے ہر یاد کا دامن دیکھو
ٹھیک کہتے بھی ہوں یہ لوگ تو کیا چارہ ہے
آپ کی یاد وو دامن نہیں چھوڑیں جس کو
یہ تو اک دام ہے میں جس میں الجھ کر دیکھو
لاکھ برباد ہوں ناشاد ہوں ناکام نہیں
وقت پلٹے گا تم آؤ گے تو یہ دیکھو گے
اس بھروسے کے سہارے میں ابھی زندہ ہوں
نظم
نیند آتی ہے تو لگتا ہے کے تم آئے ہو
مونی گوپال تپش