میری بچی نے مجھ سے کل پوچھا
بابا یہ آسماں ہے نیلا کیوں
میں نے سوچا پر اس سے کہہ نہ سکا
یہ سوال اس کے دل میں آیا کیوں
کیوں یہ باتیں ہیں اتنی دل آویز
ہے یہ انداز اتنا پیارا کیوں
کیوں ہیں لب پر یہ اتنے سارے سوال
ہے تبسم یہ پھول جیسا کیوں
میرے دل میں ادھیڑ بن کیا ہے
میں ستاروں سے جا کے الجھا کیوں
ستم انگیز زندگی دلکش
پھر یہ انجام کار مرنا کیوں
میں نے یہ کیا جواب سوچا ہے
تم نے ایسا سوال پوچھا کیوں
نظم
نیلا آسمان
حبیب تنویر