سکوت نیم شبی میں کسی نے دی آواز
نعیمؔ دل سے نکالو نہ خار ہائے خلش
سکون ہے تو اسی اضطراب میں کچھ ہے
گزار شوق میں، سوز تلاش میں کچھ ہے
جنوں کے جملہ مراحل سے تم گزر دیکھو
جمال فکر سے آباد ہے دل ویراں
شرار دل سے منور جہان فردا ہے
یہ کون مجھ سے مخاطب ہے اتنی قربت سے
یہ کس نے زخم کو دست شفا سے چھیڑا ہے؟
اسی خیال میں گم تھا کہ پھر صدا آئی
کمال عرض سخن جس کو تم سمجھ بیٹھے
وہ عجز فکر ہے اقرار بے زبانی ہے
نکل کے آؤ ذرا کوچۂ خبر دیکھو
ہر ایک چاک گریباں ہر ایک گرد آلود
نہ قتل گہہ سے ہراساں نہ سنگساروں سے
کہ ایک عمر گزرتی ہے جستجو کرتے
نظر کو تیز حقیقت کو رو بہ رو کرتے
بس ایک تم کہ تمہارے قدم نہیں اٹھتے
قیود عصر کی زنجیر کاٹنے والے
فراز کوہ سے آواز دے رہے ہیں تمہیں
پیمبروں کے مقامات دے رہے ہیں تمہیں
رخ سحر سے ہٹاؤ ردائے شب للہ
عذاب نار سے گزرو کہ طوف نور کرو
جگر کے داغ سے رکھو حریم جاں روشن
شعاع درد کو چومو گلے لگاؤ نعیمؔ
سر وجود جھکائے سنا کیا سب کچھ
تمام جسم تھا گویا نشانۂ آواز
تمام روح تھی سامع تمام غم بیدار
سکوت شب میں
صدا گونجتی رہی پہروں
نظم
ندائے تخلیق
حسن نعیم