اے دل کافر عجز سے منکر آج ترا سر خم کیوں ہے
تیری ہٹیلی شریانوں میں یہ بے بس ماتم کیوں ہے
آنکھ تو رونا بھول گئی تھی پھر ہر منظر نم کیوں ہے
مت روکو بہنے دو آنسو کسی کو کرتے ہیں پرنام
آپ جھکا ہے جھکنے دو سر چھپا تھا اس میں کوئی سلام
شاید اس کے حضور میں ہو تم جس کو کہتے ہیں انجام
وہ ہستی کی سرحد آخر ہوا جہاں ہر سفر تمام
بے بس ہے انساں بے بس ہے تکتی رہ گئی روتی شام
اٹھ گیا کوئی بھری دنیا سے باقی رہے خدا کا نام
یا پھر کاغذ پر پرچھائیں ملے گا جس کو ثبت دوام
یہ ٹکڑے انسانی دل کے شاعر اور شاعر کا کلام
ناز کروں گی خوش بختی میں میں نے فراقؔ کو دیکھا تھا
اجڑے گھر میں وہ تہذیبوں کے سنگم پر بیٹھا تھا
گرم ہم آغوشی صدیوں کی ہوگی کتنی پیار بھری
جس کی بانہوں میں کھیلی تھی اس کی سوچ کی سندرتا
شعر کا دل شفاف تھا اتنا' جیسے آئینۂ تاریخ
کیا بھر پور وصال تھا جس نے اس شاعر کو جنم دیا
گر تاریخ نے پاگل ہو کر خود اپنا سر پھوڑا ہے
خون اچھالا ہے گلیوں میں اپنا ہنڈولہ توڑا ہے
چھینٹ نہ تھی دامن پر اس کے کون گھاٹ دھو بیٹھا تھا
جسے سمجھتے ہو نا ممکن وہ اس انساں جیسا تھا
انساں بھی اتنا معمولی جیسے اپنا ہمسایہ
اپنے شعر سنانا اس کا اور خود حیراں ہو جانا
باتوں میں معصوم مہک تھی آنکھوں میں بے چین لپک
خاموشی کے وقفے یوں' جیسے اس نے کچھ دیکھا تھا
پیڑ بہت جھیلی تھی اس نے اتنی بات تو ظاہر تھی
لہجہ میں شوخی تھی جیسے راکھ میں چمکے انگارہ
سنگم کے پانی پر میں نے دیکھی تھی کیسی تصویر
اڑا لہک کر اک جل پنچھی کھینچ گیا پانی پہ لکیر
جمنا کی نیلی گہرائی بھید بھری چپ سے بوجھل
گنگا کے دھارے کی جنبش اجلی طاقت اور بے کل
اس پانی میں عکس ڈالتا آسمان کا اک ٹکڑا
مٹی کے بت ہرے ناریل چندن لگا کوئی مکھڑا
وہ دھاروں پر ناؤ کھیتا سوکھا پنجر مانجھی کا
دان کے پیسے گنتا پنڈت تانبہ سورج سانجھی کا
جمنا' پر مینار قلعہ کے گنبد کا ترچھا سایہ
پاکستان سے آئے مہاجر گیندے کی ٹوٹی مالا
پانی میں چپو کی شپ شپ باتوں کے ٹوٹے ٹکڑے
یہیں کہیں پر ہم سے اوجھل سرسوتی بھی بہتی ہے
جو سمجھی جو آگے سمجھوں چھلک رہا ہے دل کا جام
وہ منظر جو خود سے بڑا تھا اس کا گھیرا تمہارے نام
یہ کمرے کا ماند اجالا باہر ہوک پپہیے کی
کھڑکی پر بوندوں کی دستک سانسیں بھرتی خاموشی
پوری بات نہیں بتلاتا گونگے آنسو رو دینا
تیری دھرتی سہہ نہ سکے گی اتنے حسن کو کھو دینا
تنہا اور اپاہج بوڑھے تجھے نہ مرنے دیں گے لوگ
ابھی تو جیون بانجھ نہیں ہے پھر تجھ کو جنمیں گے لوگ
نظم
نذر فراق
فہمیدہ ریاض